مسلمانوں میں ہندوانہ رسم و رواج
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین اما بعد
اللہ تعالی کے نزدیک ناقابل معافی جرم شرک ہے- اللہ پاک کا ارشاد ہے:
" اللہ تعالی یہ جرم ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اسکے ساتھ کسی کو شریک بنايا جائے اور اس کے علاوہ جسے چاہے بخش دے گا۔ ( النساء:48)
ہندو اس جرم عظیم کا نمائندہ اور وکیل ہے۔ اس وقت بھی صرف ہندستان میں تین کروڑ بتوں کی پوجا ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو شرک کے خاتمہ اور توحیدی نظام کے قیام کے لیے پیدا کیا گیا تھا لیکن افسوس کہ آج کا مسلمان ہندو مشرک کی پوری پوری نقالی کررہا ہے۔
اگر ہندو گنگا، جمنا اور متھرا کے سفر کرتا ہے تو مسلمان اجمیر، داتا اور سہون جاتا ہے۔ بسنت اور ویلنٹائن ڈے پوری سرکاری سرپرستی میں منائے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ، غمی خوشی، عبادات، رسم و رواج، شکل و صورت، لباس، تہذیب و ثقافت میں اس حد تک امت مسلمہ گمراہی میں جاچکی کہ مسلمان اور ہندو میں تمیز کرنا ممکن نہیں رہا۔
جب کوئی شخص اسلام لاتا ہے تو اس میں کئ؛ تبدیلیاں پیدا ہوچکی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک اہم تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ اس کی دوستی اور دشمنی کا معیار بدل جاتا ہے۔ جو کل تک اس کے دوست تھے وہ دشمن بن جاتے ہیں اور جو دشمن تھے وہ دوست بن جاتے ہیں اور ان نئے بننے والے دوستوں کی خاطر وہ اپنے پرانے دوستوں سے لڑائی تک کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ بلیہ اس لڑائی میں اپنی جان اور مال قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
" یقینا تمہارے لیے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے جب انہوں نے اپنی قوم سے برملا کہ دیا کہ ہم بری ہیں تم سے اور اس سے جس کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے ہو۔ (ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں) ہم تمہارا انکار کرتے ہیں اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی اور بغض کھلم کھلا ضاہو ہوچکا ہے، یہاں تک کہ تم اکیلے اللہ پر ایمان لاؤ۔" (المائدہ: 51)
اس سے معلو ہوا کہ ایمان کا تقاضا ہے کہ مسلمان اور کافر کے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہو اور اس دشمنی کا کھلم کھلا اعلان کیا جائے اور یہ دشمنی اس وقب ختم ہوسکتی ہے جب وہ ایک اللہ پر ایمان لے آئیں۔
ایمان اس چیز کا نام ہے کہ اللہ تعالی اوراس کے رسولۖ سے اور ان یے دوستوں سے محبت ہو اور اللہ اور اس کے رسول ۖ کے دشمنوں سے دشمنی ہے۔
ارشاد باری ہے:
"تم میں سے جو ان کے ساتھ دوستی رکھے گا پھر وہ ہم میں سے نہیں بلکہ انہی میں سے ہے"۔ (المائدہ: 51)
وہ مسلمانوں کی صف میں نہیں بلکہ کفار کی صفوں میں ہے۔
میرے بھائیو! دیکھو کتنا سخت فتوای ہے کہ کفار سے دوستی رکھنے والا انہی میں سے ہے- مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اور رسول اللہ ۖ نے فرمايا ہے
" من تشبّھ بقوم فھو منھم"
جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہے))
(ابوداؤد کتاب الباس، باب فی لبس و الشعرا: 4031)
میرے بھائیو! اس سبب یہ ہے کہ انسان کے دوست 3 قسم کے ہوتے ہیں اور دشمن بھی 3 قسم کے۔
تین قسم کے دوست:
1/ میرا دوست وہ ہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے، مجھے سے دوستی رکھتا ہے۔
2/ میرا دوست وہ ہے جو میرے دوست سے دوستی رکھتا ہے۔
3/ میرا دوست وہ ہے جو میرے دشمن سے دشمنی رکھتا ہے۔
تین قسم کے دشمن:
1/ میرا دشمن وہ ہے جو مجھ سے دشمنی رکھتا ہے۔
2/ میرا دشمن وہ ہے جو میرے دوست سے دشمنی رکھتا ہے۔
3/ میرا دشمن وہ ہے جو میرے دشمن سے دوستی رکھتا ہے۔
جو میرے کسی دشمن سے دوستی رکھتا ہے وہ میرا دوست نہیں ہوسکتا۔ میرا دشمن بھی میرا دشمن ہے۔ میرے دوستوں کا دشمن بھی میرا دشمن ہے۔ اور میرے دشمنوں سے دوستی رکھنے والا بھی میرا دشمن ہے۔
اس لیے اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
" اے وہ لوگو! جو ایمان لوئے ہو، میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بنا لینا- کبھی ان پر اعتماد نہ کرنا۔" (الممتحنہ: 01)
میرے بھائیو! جب ایمان صحیح طریقے سے دل میں آجاتا ہے تو پھر یہ حالت ہوجاتی ہے کہ اللہ، اس کے رسول ۖ اور اہل ایمان کے ساتہ شدید محبت پیدا ہوجاتی ہے اور ان کے دشونوں سے شدید نفرت و عداوت پیدا ہوجاتی ہے- اب میں ایک دو واقعات مثال کے طور پر ذکر کرتا ہوں۔
1/ دیکھیے! ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ پہلے کافر تھے۔ بنو حنیفہ کے سردار تھے۔ مسلیمہ کذاب کے کہنے ٹر رسول اللہ ۖ کو دھوکے سے قتل کرنے نکلے۔ مگر مسلمانوں نے انہیں گرفتار کرلیا اور مسجد کے ستون کے ساتھ لاکر باندھ دیا۔ رسول اللہ ۖ ان کے پاس تشریف لائے' فرمایا: ثمامہ کہو کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا:" اچھا ہے ، اگر آپ مجھے قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے (جس کا بدلہ لینے والے موجود ہیں) اور اگر مال چاہتے ہو تو فرمائیے جتنا آپ چاہتے ہین آپ کو دیدیا جائے گا۔" آپ ۖ اسے وہیں چھوڑ کر چلے گئے، پھر اگلے دن ان کے پاس آغے اور اس سے یہی بات فرمائی اور اس نے یہی جواب دیا – پھر تیسرے دن وہاں سے گذرے اور حال دریافت کیا اور اس نے وہی جواب دیا- آپ ۖ نے فرمایا "ثمامہ کو چھوڑ دو" ثمامہ اس (اسیری کے ) دوراں قرآن پاک سنتا رہا- نبی پاک ۖ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نماز اور دوسرے حالات دیکھتا رہا- جونہی اسے چھوڑا گیا، مسجد کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں گیا، غسل کیا، مسجد میں آیا اور بند آواز سے پڑھا:
" اشھد ان لا الھ الہ اللہ، وان محمّدا رسول اللہ ۖ"
( صحیح بخاری، کتاب المغازی: باب وفد بنی حنیفہ و حدیث ثمامہ بن اثال: 4372)
اب دیکھیے! اسلام لنے کے ساتھ ہی کیا تبدیلی واقع ہوئی؟ کہنے لگے " یا رسول اللہ ۖ! اللہ کی قسم! اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ بغض مجھے کسی چہرے سے زیادہ نہیں تھا، اب آپ کا چہرا مجھے سب چہروں سے زیادہ مجبوب ہوگیا ہے- اللہ کی قسم! روئے زمین پر کوئی دین مجھے آپ کے دین سے زیادہ ناپسنیدہ نہین تھا اور اب آپ ۖ کا دین مجھے سب دینوں سے زیادہ پیارا اور محبوب ہے- اللہ کی قسم! کوئی شھر آپ کے شھر سے زیادہ برا دکھائی نہیں دیتا تھا او راب آپ ۖ کا شھر مجھے سب شھروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔"
2/ ہندہ بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ جس نے رسول اللہ ۖ کے چچا حمزہ رصی اللہ عنہ کا مثلہ کیا تھا اور جگر چبایا تھا، جب ایمان لائی تو کہتی ہیں: یا رسول اللہ ۖ تمام روے زمین پر آپ ۖ کے خیمے والوں سے زیادہ کسی خیمہ میں رہنے والوں کے متعلق میری یہ خواھش نہیں تھی کہ وہ ذلیل ہوں اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ روے زمین پر آپ کے خیمہ سے بڑھ کر کسی خیمہ کے متعلق میری خواھش نہیں کہ انہیں عزت حاصل ہو۔
(صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار: باب ذکر ھند بنت عتبہ بن ربیع رضی اللہ عنہ: 3825)
تو میرے بھائیو! یہ ایک قدرتی چیز ہے کہ ایمانی محبت تمام محبتوں پر غالب ہوتی ہے اور اللہ پاک کا ہم سے تقاضا بھی یہی ہے کہ ہماری طرف آؤ تو پورے آؤ- یہ نہیں کہ کچھ دوستی ہم سے اور کچھ دشمنوں سے ۔ یہ بات اللہ پاک کو بلکل گوارا نہیں-
اللہ پاک کا ارشاد ہے کہ:
" اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!۔۔۔۔۔۔ اسلام میں پورے پور ےداخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو۔ یقینا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔" (البقرہ: 208)
میرے بھائیو! یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں کہ ہم میں سے بیشتر کے پہلے آباء و اجداد ہندو تھے۔ پھر الہ نے انہیں اسلام کی نعمت عطا فرمائی ۔ اب چاہیے تو تھا کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوتے اور الہیں کفر کی رسموں سے سخط بغض ہوتا- ہوسکتا ہے ابتداءمیں مسلمان ہونے والوں کا ایسا ہی حال ہو، وہ پورے پورے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور انہوں نے ہندؤوانہ رسوم یکسر چھوڑ دی ہوں۔ مگر افسوس کفر کے ساتھ جو اسلام کی جو عداوت ہونی چاہیے، مسلمان اسے قائم نہ رکھ سکے- جبکہ ہندؤوں نے اسلام کے ساتھ اپنی نفرت برقرار رکھی- انہوں نے مسلمانوں کو ناپاک قرار دیا، کہ یہ پلید ہیں، ان کا جھوٹا کھانا پینا ناجائز ہے اور اگر ان کا سایہ پڑ جائے تو ہندو بھرشٹ (پلید) ہوجاتا ہے-
کفر کا اسلام کے ساتھ شدید بغض دیکھ کر مسلمانوں کو چاہیے تھا کہ وہ کفر کی سوم سے دلی بغض رکھتے اور کسی صورت ان کا اثر قبول نہ کرتے مگر ہوا کیا؟ ۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالیں- امت مسلمہ کی زندگی کا جائزہ لیں- میں بھی کچھ نشاندہی کروں گا- آپ اس ارادے سے مسلوانوں کے اعمال کو دیکھیں کہ ان میں عیروں کی کون کون سے چیزیں داخل ہوگئی ہیں تو آپ کو بے شمار چيزيں نظر آنا شروع ہوجائيں گی اور آپ پکار اٹھیں گے کہ اوہو! ہم تم ہندؤوں کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں-
حقیقت یہ ہے کہ ہماری وہ روش نہیں جو اصحاب رسون اللہ ۖ کی تھی۔ عبادات سے لے کر معاملات تک، رہن سہن سے بول چال تک، غرض ہر چيز میں وہ طریقہ اختیار کرلیا ہے جو خاص طور پر کفار کا طریقہ ہے- حالانکہ دشمنی کا تقاضا یہ تھا کہ ان کی مخالفت کی جاتی- رسول اللہ ۖ نے فرمايا:
" خافو الیھود و النصارای" (مسند احمد 5/ 263،265)
" یھودیوں اور عیسائیوں کی محالفت کرو"
نبی پاک ۖ نے بہت سی چيزيں بتائيں کہ فلاں چيز میں مخافت کرو، فلاں میں مخالفت کرو-
یہودیوں کو دیکھا کہ اپنے سر کی مانگ نہیں نکالتے، یہ دیکھ کر رسول اللہ ۖ نے سر کے درمیان مانگ نکالنی شروع کردی- یہودی موسی علیہ السلام اور بنی اسرائيل کی فرغون سے نجات کے شکرانے کے صور پر 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے- رسول اللہ ۖ نے فرمايا"
" اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو (9) محرم کا رووہ رکھوں گا- تاکہ اصل عبادت اور شکرہ بھی ادا ہوجائے اور دن بدلنے کے ساتھ یہود کی مخالفت بھی ہوجائے۔
(صحیح مسلم، کتاب الصیام: باب یوم یصام فی عاشورہ: 1134)
میرے بھائیو! ۔۔۔کوئی ایسا کام جو کفار کا خاص طریقہ ہو، اگر قران و حدیث میں اس کی واضح طور پر ممانعت نہ بھی آئی ہو تب بھی مسلمانوں کو کس سے بچنا چاہیے- کیونکہ جو کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرے ، رسول اللہ ۖ نے فرمایا وہ انہی میں سے ہے۔ لیکن اب صورتحال ہے یہ کہ مسلمانوں نے کفار کے وہ طریقے بھی اپنا لیے ہیں جن سے صاف طور پر اللہ پاک نے اور رسول اللہ ۖ نے منع فرمایا ہے- خاص طور پر ہندو قوم کے بےشمار عقائد اور رسم و رواج مسلمانوں میں رائح ہوگئے ہیں۔
ہندؤوں کے رسم و رواج کی واقفیت کے لیے میں نے چند کتابیں تلاش کی ہیں- میں آپ سے درخواست کروں گا آپ ان کا ضرور مطالعہ کریں۔
٭ " تحفتہ الہند" از مولانہ عبیداللہ
اس کتاب کے مصنف مولانہ عبیداللہ پہلے ہندو تھے۔ اس وقت ان کا نام " اننت رام" تھا- توفیق باری تعالی سے مسلمان ہوگئے تو انہوں نے ہندؤوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے یہ کتاب لکھی اور اس میں اسلام کی تعلیمات اور ہندو مذھب کے عقائد و رسم ورواج کا مقابلہ کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی- اس کتاب میں ہندؤوں کی مستند کتابوں سے ان کے رسم و رواج اور عقائد و عبادات ذکر کیے ہیں اور خود مصنف بھی چونکہ پہلے ہندو تھے، اس لیے ان کا بیان بھی ہندو مذھب کے رسم و رواج کے بیان میں معتبر حیثیت رکھتا ہے-
٭ کتاب الہند" از البیرونی
البیرونی نے ہندستان میں آکر یہاں کے عالموں اور پنڈتوں سے باقائدہ ان کے علوم پڑھے، ان کی شاگردی کی، پھر اس کتاب میں ان کے علوم اور ان کے عقائد اور رسم و رواج تفصیل سے بیان کیے-
٭ ہندستانی تہذیب کا مسلمانوں پر اثر" از ڈاکٹر محمد عمر
اس میں ڈاکٹر صاحب نے ہندو تہذیب کی ان چیزوں کی تفصیل لکھی ہے جو مسلمانوں میں داخل ہوچکی ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی کتابوں میں ہندؤوں کی رسوم بیان کی گئی ہیں۔
اب میں ہندؤوں کی چند چيزيں آپ کے سامنے ذکر کرتا ہوں-
عبادات:
سب سے پہلی چيز تو عبادت ہے اور عبادت میں پہلی چيز تو توحید باری تعالی ہے۔ ہندؤزں کے ہزاروں خدا ہیں بلکہ ان کے نزدیک ہر چيز خدا ہے- مسلمانوں میں یہ عقیدہ وحدۃالوجود کی صورت میں ظاہر ہوا۔
نماز اور ذکر
دوسری چیز نماز ہے " تحفۃ الہند" کے دوسرے باب کی دوسری فصل میں لکھا ہے کہ ہندؤزں کے دین میں میں دن رات میں ایک عبادت فوض ہے اس کا نام" سندھیا" ہے۔ اس کے تین وقت ہیں:
1/ صبح کا وقت 2/ دن کے درمیان کا وقت 3/ شام کا وقت
اور اس عبادت میں وہ دل سے تو اپنے تین بڑے دیوتاؤں " برہما" " بشن" اور " مہادیو" کی تعظیم میں مصروف رہتے ہیں۔ اور آنکھیں اور ناک بند کرکے ان کی صورت کا تصور رکھتے ہیں۔ " بشن" کی تصویر کو اپنی ناف میں خیا رکھتے ہیں " برہما" کی صورت کو سینے میں اور " مہادیو"کی صورت کو اپنے دماغ میں خیال کرتے ہیں۔ صبح کے وقت "سندھیا" میں مشرق کو منہ کرتے ہیں۔ دوپہر کو کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ بطور دعا اٹھاتے ہیں اور شام کی عبادت میں مغرب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوتے ہیں۔
اب آپ غور فرمائيے! اسلام کا ان چيزوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے بلکہ یہ سب بت پرستی کے کام ہيں۔ نہ ہی اسلام میں آنکھیں بند کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور نہ ہی سانس بند کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ مگر ہندؤوں کے اثر کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی یہ چيزيں آگئی ہیں۔ صوفی حضرات اسم ذات اور نفی اثبات کے ذکر کا طریقہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ آنکھیں بند کرکے پڑھو اور سانس بند کرکے پڑھو، یہ طریقہ ہندؤوں سے آيا ہے، ہندؤوں کے دیوتاؤں کی جگہ مسلمانوں نے شیخ کا کا تصور رکھنا شروع کرديا کا عبادت کرو، اللہ کا ذکر کرو تو مرشد کا تصور رکھو۔ حالانکہ یہ صاف اللہ کی عبادت میں مخلوق کوشریک کرنا ہے۔
لا الہ الا اللہ پڑھتے وقت اس کے مفہوم کی طرف توجہ کی بجاء یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ "لا" کی گھنڈی کا تصور ناف میں رکھیں اور لفظ " الہ" کا تصور دماغ میں رکھیں اور " الہ اللہ" کی ضرب دل میں لگائيں- حالانکہ اس طریقہ کا کتاب و سنت میں کوئی وجود ہی نہیں- کئی لوگ لفظ اللہ لکھ کر اس کا نقش دل پر یا دماغ پر جماتے ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالی کی ذات کا تصور نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ ۖ نے یہ تعلیم دی- اللہ تعالی وہ ہستی ہیں جس کی کرسی آسمان و زمین سے وسیع ہے۔ اس کا تصور کاغذ پر لکھے ہوئے ایک لفظ کی صورت میں کرنا اسلام کی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور پھر ہندؤوں نے جس طرح اپنے دیوتاؤں کے نقش کے تصور کے لیے ناف سینہ اور دماغ مقرر کیے ہیں اسی طرح صوفی حضرات نے ناف، سینے، اور دماغ مقرر کیے ہیں' اسی صوفی حصرات نے ناف، سینے اور دماغ میں 6 لطیفوں کی جگہ مقرر کر رکھی ہے اور ہر ایک لطیفے کو کسی نہ کسی پیغمبر کے زیر قدم رکھا ہوا ہے۔
اسلام میں اللہ تعالی کا زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی تاکید کی گئی ہے- مگر اس کے لیے رسول اللہ ۖ نے ہر موقع کی مناسبت سے ذکر کی تعلیم دی گئی ہے- نہایت جامع اور بامعنی کلمات سکھائے ہیں-
مثال کے طور پر صبح کو اٹھے تو کہے:
(الحمد للہ الذی احیانا بعد ما اماتنا علیہ النشور)
" صحیح بخاری، کتاب توحید، باب السئوال باسما اللہ تعالی:7394"
بیت الخلاء جائے تو:
((اللھم انی اعوذ بک من الخبث والخبائث))
" صحیح بخاری، کتاب الوضو، باب ما یقول عند الخلاء: 142"
گھر سے نکلے تو:
(بسم اللہ توکلت علی اللہ لا حول و لا قوۃ الا باللہ)
" ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما یقول اذا خرج من بیتہ: 5059"
عام حالات میں کوئی بامعنی کلمہ:
((سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الااللہ واللہ اکبر))
" ترمذی ، کتاب الدعوات، باب فی العفو و العافیہ: 3597"